Short Moral Stories in Urdu
Our collection of “15 Short Moral Stories in Urdu” are handpicked stories is for anyone who loves a good story and wants to learn something new. These stories teach you important lessons with fun. Read it and also share it with your friends
شیخ سعدی سے پوچھا گیا کہ اولاد کی تربیت کیسے کرنی چاہیے انہوں نے فرمایا:
جب بچے کی عمر دس سال سے زیادہ ہو جائے تو اس کو نامحرموں اور ایروں غیروں میں نہ بیٹھنے دو۔
اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا نام باقی رہے تو اولاد کو اچھے اخلاق کی تعلیم دے۔
اگر تجھے بدے سے محبت ہے تو اس سے زیادہ لاڈ پیار نہ کر۔
بچے کو استاد کا ادب سکھاؤ اور اس کو استاد کی سختی سہنے کی عادت ڈالو۔
بچے کی تمام ضرورتیں خود پوری کرو اور اس کو ایسے عمدہ طریقے سے رکھو کہ وہ دوسروں کی طرف نہ دیکھے۔
شروع شروع میں پڑھاتے وقت بچے کی تعریف اور شاباش سے اس کی حوصلہ افزائی کرو جب وہ اس طرف راغب ہو جائے تو اس کو اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کی کوشش کرو اور ضرورت پڑے تو سختی بھی کرو
بچے کو دستکاری (ہنر ) سکھاؤ۔ اگر وہ ہنر مند ہو گا تو برے دنوں میں بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنے ہنر سے کام لے سکے گا۔
بچوں پر کڑی نگرانی رکھو تاکہ وہ بروں کی صحبت میں نہ بیٹھیں
ایک عابد نے “خدا کی زیارت” کے لیے 40 دن کا چلہ کھینچا۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسر کٹا ہوا تھا اس کا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گذرتا تھا، 36 ویں رات اس عابد نے ایک آواز سنی
: شام 6 بجے، تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اور خدا کی زیارت کرو_
عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دوکان کو ڈھونڈنے لگا۔
وہ کہتا ہے
:“میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی”
اسے وہ بیچنا چاہتی تھی- وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا:
“4 ریال ملیں گے”
وہ بڑھیا کہتی:“6 ریال میں بیچوں گی”
پر کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا-
آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی۔ تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا۔
بوڑھی عورت نے کہا:
“میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور میں اسے 6 ریال میں بیچوں گی کیا آپ چھ ریال دیں گے؟”
تانبہ ساز نے پوچھا:
“چھ ریال میں کیوں؟؟؟”
بوڑھی عورت نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا:
“میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت 6 ریال ہے”
تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا:
“ماں یہ دیگچی بہت عمدہ اور نہایت قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25 ریال میں خریدوں گا!!”
بوڑھی عورت نے کہا: “کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟!!! “
تانبہ والے نے کہا: “ہرگز نہیں،میں واقعی پچیس ریال دوں گا”
یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور بوڑھی عورت کے ہاتھ میں 25 ریال رکھ دیئے !!!
بوڑھی عورت، بہت حیران ہوئی۔ دعا دیتی ہوئی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔
عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بوڑھی عورت چلی گئی تو میں نے تانبے کی دوکان والے سے کہا:
“چچا، لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا؟
بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور 4 ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی اور آپ نے 25 ریال میں اسے خریدا”
بوڑھے تانبہ ساز نے کہا:
“میں نے برتن نہیں خریدا ہے۔ میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لیے اور ایک ہفتے تک اس کے بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دئیے ہیں۔ میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے-“
عابد کہتا ہے میں سوچ میں پڑگیا۔ اتنے میں غیبی آواز آئی:
“چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا۔ گرتے ہووں کو تھامو، غریب کا ہاتھ پکڑو، ہم خود تمہاری زیارت کو آئیں گے”۔
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُم°
“وہ تمہـــارے ساتھ ہــے جہـــاں بھـــی تــم ہـــو”
بے شک ♥
“میٹھا پھل”
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بزرگوں کے ایک گروہ کے ساتھ میں کشتی میں بیٹھا تھا۔ ہمارے پیچھے ایک چھوٹی کشتی ڈوب گئی ۔ اور اس میں سوار دو بھائی ایک بھنور میں پھنس گئے۔ میرے ساتھی بزرگوں میں سے ایک نے ملاح سے کہا کہ جلد دونوں بھائیوں کو بچاؤ ۔ تجھے ہر اک کے عوض پچاس دینار دوں گا۔ ملاح پانی میں کود پڑا اور ایک بھائی کو بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن دوسرا ہلاک ہو گیا۔ میں نے کہا کہ اس کی زندگی باقی نہ رہی تھی اس لیے تو نے اسے پکڑنے میں سستی کی اور دوسرے کے پکڑنے میں بڑی پھرتی دکھائی ۔ ملاح ہنس پڑا اور کہا کہ جو کچھ تو نے کہا ہے درست ہے لیکن ایک دوسر ا سبب بھی ہے۔ میں نے کہا وہ کیا کہنے لگا کہ اس کو بچانے کی خواہش میرے دل میں زیادہ تھی کیونکہ ایک دفعہ میں جنگل میں سخت تھک گیا تھا اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور دوسرے کے ہاتھ سے میں نے لڑکپن میں ایک کوڑا کھایا تھا۔
میں نے کہا کہ اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے کہ جو شخص نیک کام کرتا ہے وہ اس کی اپنی ذات کے لیے فائدہ مند ہے اور جو شخص برا کام کرتا ہے اس کی برائی بھی اسی پر ہے
زمانے کی گردش اور دنوں کی سختی سے میں کبھی دل شکستہ اور رنجیدہ نہیں ہوا۔ مگر ایک با رضرور ملال ہوا جب میرے پاؤں میں جوتی نہ تھی اور نہ خریدنے کو جیب میں پیسہ تھا۔
میں حیران پریشان کوفے کی جامع مسجد میں جانکلا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک شخص کے پاؤں ہی نہیں ہیں۔ پس میں نے اپنے پاؤں کی سلامتی پر خدا کا شکر ادا کیا اور ننگے پاؤں رہنا ہی غنیمت سمجھا۔
ہمیں ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی نے اپ کو جو نعمتیں دی ہیں شاید کسی اور کے پاس وہ نعمتیں نہ ہو۔
” دنیا کے معاملے میں اپنے سے نیچے لوگوں کو دیکھو جس سے اپ کو شکر کرنے کی توفیق ملے گی. اور دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر لوگوں کو دیکھو جس سے اپ کو اور زیادہ نیکی کرنے کی توفیق ملے گی “
خدا بھی موجود ہے
بوڑھے آدمی نے اطمینان سے بسم اللہ پڑھی اور حجام کی کرسی پر بال کٹوانے کے لئے بیٹھ گیا۔ بوڑھے کے چہرے پر موجود نرم مسکراہٹ سے حجام کو بات چیت کا حوصلہ ہوا۔۔۔ حجام نے کہا دنیا میں بہت سے مذاہب خدا کو مانتے ہیں لیکن میں خدا کے وجود کو نہیں مانتا۔ مسلمان بوڑھے نے پوچھا: “کیوں نہیں مانتے؟ حجام نے کہا دنیا میں بہت پریشانیاں مصیبتیں بدحالی اور افراتفری ہے۔ اگر خدا کا وجود ہوتا تو یہ سب مصیبتیں اور پریشانیاں بھی موجود نہ ہوتیں۔
بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا میں بھی اس دنیا میں حجام کے وجود کو نہیں مانتا۔ حجام نے پریشان ہو کر پوچھا: “کیا مطلب؟ میں آپ کی بات نہیں سمجھا بوڑھے نے حجام کی دکان سے باہر گزرتے ایک گندے اور لمبے بالوں والے شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا: کیا تم اس شخص کے لمبے اور گندے بال دیکھ رہے ہو ؟ حجام نے کہا جی ہاں۔ لیکن اسکا میری بات سے کیا تعلق؟” بوڑھے نے نرم لہجے میں کہا: “اگر” حجام ہوتے تو لمبے اور گندے بالوں والے لوگ بھی نہ ہوتے۔ حجام نے کہا: ہم موجود ہیں، لیکن ایسے لوگ ہمارے پاس نہیں آتے!” بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا بالکل۔ خدا بھی موجود ہے لیکن لوگ ہدایت کے لئے خدا کی طرف رجوع نہیں کرتے
” فطری صلاحیت “
ایک بادشاہ نے اپنا بیٹا ایک معلم کے سپرد کیا اور کہا کہ اس کی ایسی تربیت کریں جیسے اپنے حقیقی بیٹے کی کرتا ہے. معلم نے کئی برس نہایت تن دہی سے اس کی تربیت کی لیکن شہزادے پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ “کورے کا کورا رہا” اس دوران معلم کے بیٹے پڑھ لکھ کر اعلی درجے کے عالم و فاضل بن گئے “بادشاہ نے معلم سے کہا کہ تو نے وعدہ خلافی کی ہے اور شرط وفا نہیں بجا لایا” معلم نے عرض کیا
”جہاں فناہ” میں نے شہزادے اور اپنے فرزندوں کی تربیت یکساں طور پر کی ہے لیکن اس کا کیا علاج کہ ہر انسان کی فطری صلاحیت جدا جدا ہے شہزادے میں فطری صلاحیت نہیں تھی اس لیے کچھ حاصل نہ کر سکا میرے بچوں میں فطری صلاحیت تھی وہ کہیں سے کہیں جا پہنچے.
“سونا چاندی پتھر سے نکلتا ہے لیکن ہر پتھر سے سونا چاندی نہیں نکلتا”
بچے کو جو کام یا ہنر پسند ہو اسکو وہ کرنے دیں کیونکہ اپ اگر اپنی مرضی کریں گے تو پھر کچھ بھی بن نہ پائیں گا.
“سونے چاندی سے شلغم اچھے “
ایک مسافر کسی بڑے ریگستان میں راستہ بھول گیا بدقسمتی سے کھانا بھی ختم ہو چکا تھا اور برداشت کی طاقت بھی ختم ہورہی تھی۔ “کمر سے کچھ پیسے باندھے ہوے تھے” جب ارد گرد پھر کر غریب نے کہی راہ نہ پائی تو بے چینی سے جان دے دی کچھ عرصے بعد اس طرف کسی قافلے کا گزر ہوا تو دیکھا کہ مرنے والے کے سامنے روپیوں کی تیلی پڑی ہوی تھی۔ اور زمین پر یہ لکھا ہوا تھا
“مال و دولت سے پیٹ نہیں بھرتا سونے چاندی سے شلغم اچھے ہیں جس سے پیٹ تو بھر سکتا ہے”
پیسے کو سب کچھ سمجھنا بھی غلط ہے. کبھی کبھی پیسے بھی انسان کے کچھ کام نہیں آتے.
Related