Quran Para 29
خلاصہ-29-اُنتیسواں-پارہ-القران کریم
اس پارے میں کل گیارہ سورتیں ہیں
سورۂ ملک
اس سورت میں دو باتیں یہ ہیں
الف: توحید کا اثبات ، زمین ، آسمان ، موت ، حیات ، عزت ، ذلت ، زمینی و آسمانی مخلوقات کا خالق و مالک اللہ ہی ہے۔
ب: قیامت کو جھٹلانے والوں کا درد ناک انجام ، جہنم اس قدر جوش میں ہوگی ، یوں لگے گا کہ پھٹ پڑے گی۔
سورۂ قلم
اس سورت میں تین باتیں یہ ہیں
الف: قلم کی عظمت
ب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کا بیان
ج: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کی اخلاقی پستی کو بیان کرتے ہوئے آپ کو ان کی بات ماننے سے منع فرمایا گیا ہے ، بالخصوص ولید بن مغیر کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ وہ زیادہ قسمیں کھانے والا ، کمینہ خصلت ، چغل خور ، بھلائی سے روکنے والا ، حد سے بڑھنے والا ، گنہگار ، اکھڑ مزاج اور اس کے علاوہ بد ذات ہے ، اس کی سرکشی کی وجہ یہ ہے کہ وہ مال اور بیٹوں والا ہے ، جب اسے آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ اگلے لوگوں کے افسانے ہیں ، ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے
سورۂ حاقہ
اس سورت میں تین باتیں یہ ہیں
الف: قیامت سے پہلے کے ہولناک واقعات اور پھر قیامت کا تذکرہ ، جسے نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ خوشی خوشی سب کو دکھاتا پھرے گا کہ یہ دیکھو میرا نامۂ اعمال اور جسے بائیں ہاتھ نامۂ اعمال دیا جائے گا وہ تمنا کرے گا کہ کاش! مجھے یہ اعمال نامۂ دیا ہی نہ جاتا اور مجھے معلوم ہی نہ پڑتا کہ میرا حساب کیا ہے؟ کاش! موت نے میرا کام ہمیشہ کے لیے تمام کردیا ہوتا ، نہ مال کام آرہا ہے نہ دنیاوی غلبے۔
ب: بدبختوں کی دو علامتیں ہیں: ایک یہ کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور دوسری یہ کہ وہ مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے۔
ج: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی صداقت کا بیان کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں ہے۔
سورۂ معارج
اس سورت میں چار باتیں یہ ہیں
الف: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ لوگ آپ سے استہزاءً پوچھ رہے ہیں کہ یہ کب آئے گا؟ آپ صبرِ جمیل سے کام لیجیے ، ان کی نظر میں یہ عذاب دور ہے ، مگر ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔
ب: قیامت کا تذکرہ کہ اس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ رنگین روئی کی طرح ہوجائیں گے ، اس دن نہ کوئی دوست کام آئے گا نہ رشتہ دار۔
ج: انسان کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ بڑا حریص اور جزع فزع کرنے والا ہے ، مصیبت میں چیخنے لگتا ہے ، مال ہاتھ آئے تو بخیل بن جاتا ہے۔
د: نماز پڑھنے والوں کی آٹھ صفات کا ذکر کرکے بتایا گیا کہ ایسے لوگوں کا جنت میں اکرام کیا جائے گا: (1) نماز کی پابندی (2) سخاوت (3) قیامت کی تصدیق (4) اللہ کے عذاب کا خوف (5) پاکدامنی (6) دیانت داری (7) سچی گواہی (8) نماز کو اس وقت میں ادا کرنا۔
سورۂ نوح
اس سورت میں حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ ، انھوں نے رات دن اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا ، مگر وہ ان سے بھاگتے رہے ، ان کی دعوت کے وقت اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیا کرتے تھے ، تکبر کرتے تھے ، حضرت نوح علیہ السلام نے انھیں اللہ سے معافی مانگنے کو کہا اور بتایا کہ استغفار کرنے سے بارانِ رحمت برسے گی ، خوب مال اور نرینہ اولاد عطا ہوگی ، باغات اور نہروں کا حصول ہوگا ، انھوں نے ان کے سامنے اللہ کی صفات بیان کی کہ تہ بہ تہ سات آسمان ، چمکتے دمکتے شمس و قمر ، کھیتیاں سب کو بنانے والا اللہ ہی ہے ، ہمیں دوبارہ اسی کے پاس جانا ہے ، مگر قوم نے ایک نہ مانی ، بالآخر اللہ نے ان سب کو غرق کردیا ، آخر میں حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے ایک بہت پیاری دعا مانگی: رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا
سورۂ جن
اس سورت میں دو باتیں یہ ہیں
الف: جنات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کو سن کر اسلام قبول کرنا اور اپنی قوم کو جاکر اس کی دعوت دینے کا واقعہ مذکور ہے۔
ب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حکم دیا کہ کہہ دیجیے کہ اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی شریک نہیں ٹھہراتا ، نہ تمھارا کوئی نقصان میرے اختیار میں ہے نہ بھلائی ، اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے ، میرا کام پہنچانا ہے ، اب جو اللہ اور رسول کا نافرمان ہوگا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ کا مستحق ہوگا۔
سورۂ مزمل
اس سورت میں سات باتیں یہ ہیں
الف: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیار بھرا خطاب: “اے چادر میں لپٹنے والے”
ب: تہجد کا حکم اور ترغیب
ج: اللہ کے ذکر کا حکم
د: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی کہ آپ کافروں کی باتوں پر صبر کیجیے اور ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجیے۔
ہ: فرعون کی نافرمانی کا تذکرہ
و: قرآن کو جہاں سے سہولت ہو پڑھنے کا حکم۔
ز: نماز ، زکوۃ اور استغفار کا حکم
سورۂ مدثر
اس سورت میں پانچ باتیں یہ ہیں
الف: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیار بھرا خطاب: “اے چادر میں لپٹنے والے”
ب: انذار ، تکبیر ، تطہیراور صبر کا حکم اور اس بات کا بھی کہ زیادہ پانے کی نیت سے احسان نہ کیا جائے۔
ج: قیامت کا تذکرہ۔
د: ولید بن مغیر کا تذکرہ جس نے یہ رائے دی تھی کہ قرآن کی آیات کو جادو اور بشر کا کلام کہا جائے ، اللہ نے فرمایا کہ اس کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو ، اسے میں نے پیدا کیا ، خوب مال اور نرینہ اولاد عطا کیے ، کاموں کے راستے ہموار کیے مگر اس کی لالچ بڑھتی رہی ، ہماری آیتوں کا دشمن بن گیا ، ہم عن قریب اسے جہنم رسید کریں گے۔
ہ: جنت اور جہنم کے احوال۔
سورۂ قیامہ
اس سورت میں تین باتیں یہ ہیں
الف: قیامت کا تذکرہ
ب: قرآن کی حفاظت کا ذمہ
ج: تخلیق انسان کے مراحل
سورۂ دہر
اس سورت میں چار باتیں یہ ہیں
الف: تخلیق انسان
ب: انسانوں کی دو قسمیں ہیں: شکرگزار اور ناشکرے
ج: آخرت میں کافروں کے لیے زنجیریں ، گلے کے طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔
د: وہ لوگ جو نیک ہیں ، منتیں پوری کرتے ہیں ، روزِ آخرت سے ڈرتے ہیں ، مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ، ان کے لیے جنت کی نعمتیں ہیں ، من جملہ ان کے کافور کی آمیزش والے مشروبات ہوں گے ، ایک ایسے چشمے سے جسے وہ جہاں چاہیں گے بہاکر لے جائیں گے ، باغات ہوں گے ، ریشمی ملبوسات ہوں گے ، وہ وہاں آرام دہ اونچی نشستوں پر بیٹھے ہوں گے ، نہ دھوپ کی تپش نہ کڑاکے کی سردی ، چاندی کے برتن ہوں گے ، توازن کے ساتھ بھرے ہوئے شیشے کے پیالے گردش میں ہوں گے ، سونٹھ ملا جام ہوگا ، سلسبیل نام کے چشمے ہوں گے ، بکھیرے ہوئے موتیوں جیسے خدمت گار لڑکے ہوں گے جو کبھی بوڑھے نہ ہوں گے ، نعمتوں کا ایک جہان ہوگا ، ایک بڑی سلطنت ہوگی ، باریک اور دبیز ریشم کے ملبوسات انھیں پہنائے جائیں گے ، چاندی کے کنگنوں سے آراستہ کیا جائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پروردگار انھیں پاکیزہ شراب پلائے گا۔
سورۂ مرسلات
اس سورت میں دو باتیں یہ ہیں
الف: قیامت کا تذکرہ ، جنتیوں اور جہنمیوں کا ذکر
ب: اس سورت میں اللہ نے گیارہ بار مکذبینِ قیامت کے لیے ہلاکت کا اعلان فرمایا ہے۔